نسیمِ سحر ۔۔۔ ہم چلے اِس دشتِ ہُوکے اُس طرف

ہم چلے اِس دشتِ ہُوکے اُس طرف
یعنی اپنے کاخ و کُو کے اُس طرف

جستجو کا توجو حاصل ہے، سو ہے
جانے کیا ہے جستجو کے اُس طرف!

ایک سنّاٹے کی آوازیں بھی ہیں
ایک شورِ ہاؤہوکے اُس طرف

رنگ و بُو کے سلسلے ہیں اَور بھی
اِس جہانِ رنگ و بُو کے اُس طرف

منتظر میرا کئی صدیوں سے ہے
ایک صحرا، آبجُو کے اُس طرف

اِک خموشی اِس طرف پھیلی ہوئی
اِک خموشی گفتگو کے اُس طرف

رقص میں ہے اِک زوال آمادگی
شِدّت ِشوقِ نمو کے اُس طرف

حسرتوں کا ایک قبرستان ہے
میرے شہرِ آرزو کے اُس طرف

ایک گردش اَور بھی دیکھی گئی
گردشِ جام و سبو کے اُس طرف

’میں‘ یقیناً مجھ میں بھی ہے تو سہی
پائی جاتی ہے یہ ’تُو‘ کے اُس طرف

کیوں دِکھائی دے رہا ہوں مَیں اِدھر؟
جب کھڑا ہوں خوبرُو کے اُس طرف !

دیکھتا ہوں مَیں تو بس اُس کو نسیمؔ
جو چھپا ہے روبرو کے اس طرف

Related posts

Leave a Comment